ہون چنگا ریا ای

Amir HameedMy Writings

اپنی ہونڈا پر سوار میں تیز تیز اپنے دفتر کی طرف میں جا رہا تھا ساتھ ساتھ یاد کر کہ اللہ نے مجھے کن کن نعمتوں اور احسانات سے نوازا شکر ادا کر رہا تھا ۔تب ہی میں مین روڑ پر موجود تنگ پل سے گزرنا تھا۔
اس اور ہیڈ بریج پر صرف موٹر سایکل سوار ہی گزر سکتے تھے۔ مجھ سے اگے ایک شخص بائیک پر کافی ساری بھاری بھرکم سبزیوں کی بوریاں لادے میرے آگے آگے جا رہا تھا۔ بوجھ کی وجہ سے وہ تیز نہیں چلا سکتا تھا۔ نفس کو اس بات پر غصہ آنے لگ گیا کیوں کے مجھے دفتر جانے کے لیے جلدی تھی اور یہ شخص اب مجھے لیٹ کرواے گا اور شکر والے لمحات غصے میں بدل گئے۔ اور اب خیالات آ رہے کہ یہ مین روڈ سے کیوں نہیں آیا ، خود بھی تنگ ہو رہا ہے اور ہمیں تنگ کر رہا ہے۔ اور اگر یہ کہیں پھنس گیا تو آگے پیچھے والے سارے پھنس جائیں گے۔ نہ آگے کے رہیں گے اور نہ پیچھے کے۔ بوریوں کی وجہ سے اس کو اوور کروس بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
پھر اچانک ایک بات یا د آئی۔
اچھے وقت پر تو لوگ شکر کر ہی لیتے ہیں حق تو تب ہے کہ ہر لمحے ، ہر حال میں شکر کیا جائے۔
نفس کہنے لگا: اب اس وقت میں کس بات کو یاد کر کہ شکر کروں۔
جواب آیا: اگر یہ آگے والا گِر جاے یہ کہیں یہاں پھنس جائے ، تو دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک اور تمہارے پیچھے سے آنے والی ٹریفک بھی پھنس جائے گی ، تب تمہارا کیا بنے گا۔
پھر دل واپس شکر کی طرف آیا اور اطمینان سے اس کے پیچھے چلنے لگا۔
پھر جب پل ختم ہونے لگا تو آگے والے صاحب پھنسے ہوئے تھے کیوں کہ ان پلوں پر ایک رکاوٹ ہوتی جس کی وجہ سےمشکل سے ایک وقت میں صرف ایک بائیک اس میں داخل یا نکل سکتی تھی۔ان صاحب کی بوریوں کی وجہ سے وہ پھنس گیا۔
پھر میں سوچنے لگ یہ پل سے اترتے نکلتے وقت پھنس گیا ہے تو یہ پل پر چڑا کیسے تھا؟
نفس اس کو پھنسا ہوا دیکھ کر کہنے لگا: ہون چنگا ریاای ائے